منگل 29 اپریل 2025 - 09:41
حوزہ علمیہ قم؛ حضرت معصومہ (س) کی قربت سے فیضیاب

حوزہ/اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنایا تو اس کی ہدایت کے لیے انبیاء اور اوصیاء علیہم السّلام کو بھیجا، یہ سلسلہ، آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مکمل ہوا اور ان کے بعد اہل بیت علیہم السلام کو اس امت کی ہدایت اور رہبری کا مرکز قرار دیا گیا۔ اہل بیت کی زندگی علم، عمل، اخلاص، ایثار اور قربانی کا ایسا نمونہ ہے جو ہر زمانے میں امت کے لیے چراغ راہ ہے۔

تحریر: مولانا سید ساجد حُسین رضوی محمد

حوزہ نیوز ایجنسی| اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنایا تو اس کی ہدایت کے لیے انبیاء اور اوصیاء علیہم السّلام کو بھیجا، یہ سلسلہ، آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مکمل ہوا اور ان کے بعد اہل بیت علیہم السلام کو اس امت کی ہدایت اور رہبری کا مرکز قرار دیا گیا۔ اہل بیت کی زندگی علم، عمل، اخلاص، ایثار اور قربانی کا ایسا نمونہ ہے جو ہر زمانے میں امت کے لیے چراغ راہ ہے؛ انہیں ہستیوں میں ایک روشن ستارہ، ایک بلند مقام رکھنے والی شخصیت بی بی فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی ہے۔ ان کی سیرت ایک ایسا آئینہ ہے جس میں طلاب، علماء، مومنین اور مومنات اپنی زندگی کے مقاصد کو پہچان سکتے ہیں۔

بی بی فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا، امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی نورِ نظر اور امام علی رضا علیہ السلام کی شریکِ وفا اور ہمشیرہ تھیں۔ آپ کا تعلق ایسے گھرانے سے تھا جہاں وحی کی خوشبو، قرآن کی صدائیں، عصمت کا نور اور علم کی ندیاں بہتی تھیں۔ آپ نے اپنی پاکیزہ زندگی میں نہ صرف عبادت اور اطاعتِ الہیٰ کو اپنا زیور بنایا بلکہ علم دین کی عظمت کو بھی اپنی حیات کا محور بنایا۔ بی بی کا لقب "معصومہ" امام رضا علیہ السلام نے عطا فرمایا، اور یہی لقب آپ کی پاکیزگی، مقامِ طہارت اور روحانی رفعت کا آئینہ دار ہے۔

بی بی کی زندگی کا ایک عظیم باب آپ کی ہجرت ہے۔ جب امام رضا علیہ السلام کو زبردستی مدینہ سے خراسان لے جایا گیا، تو اہل بیت کے چاہنے والوں کا دل بے قرار ہو گیا۔ محبت و ولایت کا تقاضا تھا کہ کوئی امام کے حال کی خبر لے، ان سے ملاقات کرے۔ بی بی فاطمہ معصومہ (س) نے اس فریضے کو ادا کرتے ہوئے مدینہ سے خراسان کا سفر شروع کیا۔ یہ سفر نہایت پرمشقت اور خطرناک تھا۔ راستے میں بہت سی تکلیفیں، سیاسی دباؤ اور جسمانی بیماریوں کا سامنا ہوا۔ یہاں تک کہ آپ قم شہر میں پہنچیں، جہاں شیعہ عوام نے آپ کا پرجوش استقبال کیا۔ لیکن بیماری نے آپ کو زیادہ مہلت نہ دی اور آپ نے اس سرزمین پر اپنے پاکیزہ جسم کے ساتھ ہمیشہ کے لیے آرام پایا۔

بی بی کے مقدس وجود کی برکت سے قم علم و ہدایت کا مرکز بن گیا۔ وہی قم، جو آج دنیا کے عظیم ترین دینی مراکز میں شامل ہے، جہاں حوزہ علمیہ قم کی صورت میں ہزاروں طلاب علم حاصل کر رہے ہیں اور پوری دنیا میں دینِ اسلام کے حقیقی پیغام کو عام کر رہے ہیں، یہ سب بی بی فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے طفیل ہے۔ آپ کی ضریح کے سائے میں علم پروان چڑھتا ہے، تقویٰ کی مہک پھیلتی ہے اور دین کی شمعیں روشن ہوتی ہیں۔

بی بی فاطمہ معصومہ کی حیاتِ مقدسہ طلاب اور حوزہ علمیہ سے وابستہ افراد کے لیے ایک خاص پیغام رکھتی ہے۔ بی بی نے ہمیں یہ سکھایا کہ علم کو محض الفاظ اور نصوص کا مجموعہ نہ سمجھا جائے بلکہ اسے قلب و روح کا نور بنایا جائے۔ ایک طالب علم کا سب سے پہلا ہدف خالص نیت کے ساتھ علم دین حاصل کرنا ہونا چاہیے۔ وہ علم جو انسان کو اللہ کے قریب کر دے، جو بندے کو بندگی سکھائے اور جس کے ذریعے امت کی اصلاح ہو۔

طلاب کے لیے بی بی کی سیرت میں یہ درس بھی ہے کہ اخلاق، حلم، صبر اور حیا کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھیں۔ علم بغیر اخلاق کے اندھیرا ہے اور اخلاق بغیر علم کے بے سمت روشنی۔ ایک سچے طالب علم کی پہچان یہی ہے کہ اس کا علم اسے عاجزی عطا کرے، اور اس کا اخلاق اس کی علمی عظمت کو ظاہر کرے۔

بی بی فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی زندگی کا ایک اور نمایاں پہلو عشقِ ولایت ہے۔ آپ نے اپنی ساری زندگی ولایتِ امام وقت کے دفاع میں گزاری۔ ان کی ہجرت، ان کی بیماری، اور ان کی شہادت سب ولایت کے عشق میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ آج کے طلاب پر بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی علمی زندگی میں ولایت کو محور بنائیں، نہ صرف عقیدے میں بلکہ عمل میں بھی۔ امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے حقیقی سپاہی بننے کے لیے ضروری ہے کہ طالب علم اپنی علمی، عملی اور اخلاقی تربیت کو ولایت کے رنگ میں رنگے۔

بی بی فاطمہ معصومہ کا روضہ، ان کے ماننے والوں کے لیے امید کا چراغ ہے۔ جہاں دل کی بیماریاں شفا پاتی ہیں، جہاں حوزہ علمیہ کا ہر طالب علم ان کی دعا کے سائے میں آگے بڑھتا ہے۔ بی بی کے حرم میں آج بھی زائرین علم کی خیرات مانگتے ہیں، معرفت کا نور طلب کرتے ہیں اور قربِ ولایت کی دعا کرتے ہیں۔

آج جب ہم بی بی فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی ولادت کی خوشی منا رہے ہیں، تو یہ خوشی محض رسمی نہ ہو۔ بلکہ یہ عہد ہو کہ ہم علم کے راستے پر خلوص کے ساتھ گامزن ہوں گے، اپنی زندگیوں کو تقویٰ سے معطر کریں گے، اور اپنی کوششوں کو دین کی خدمت میں وقف کر دیں گے۔ ہمیں چاہیے کہ بی بی کی زندگی کو اپنا اسوہ بنائیں، ان کے راستے پر چلتے ہوئے اپنی علمی، تبلیغی اور اخلاقی ذمہ داریوں کو پورا کریں، تاکہ کل جب حاضری کا وقت آئے تو سرخرو ہو سکیں۔

اے فاطمہ معصومہ (س)! آپ کی عظمت کے صدقے ہمیں علم کے نور، عمل کے چراغ اور ولایت کے راستے پر ثابت قدم رکھنا۔ ہمیں ان طلاب میں شامل فرما لینا جو آپ کی خوشنودی کا ذریعہ بنیں۔

اللہم صل علی محمد وآل محمد وعجل فرجہم۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha